Thursday, January 8, 2015

دعا میں وسیلہ لانے کے آّّ ثار :


: حضرت زبیر مشہور صحابی ھیں انھوں نے ا پنے بیٹے عبداللہ کو شہادت سے قبیل وصیت فرمائی کہ میرا قرضہ ادا کر دینا اور کوئی مشکل پیش آئے تو میرے مولا سے کہدینا ۔ بیٹے نے پوچھا آپ کے مولا کون، فرمایا اللہ تعالی ۔ عبداللہ نے جب قرضہ جوڑا تو بائیس لاکھ درھم تھا ۔ عبداللہ نے تمام قرضہ ادا کیا، کہتے ھیں کہ جب بھی کوئی دقت پیش آتی میں کہتا "اے زبیر کے مولا فلاں کام نہیں ھوتا وہ فوری ھو جاتا ' (فضائل اعمال از مولانا محمد ذکریا) صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب بھی دعا کی اس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا توسل ضرور اختیار کیا ،تخاطب نہ صرف رب العزت سے کرتے بلکہ سردار دو عالم و مختار کل سے مخاطب ہوکر عریضہ پیش فرماتے یامحمد انی تو جھت لک الی ربی کیونکہ رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اسی لفظ کی تعلیم دی تھی دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا حوالہ دینے سے مقصود اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنا ہے تو یہ درست ہے۔ حدیث میں اللہ کی مخلوق یعنی چرند پرند کا حوالہ دے کر بارش کی دعا کی گئی ہے۔ اسی طرح اپنے کسی نیک عمل کا حوالہ دے کر اللہ سے دعا کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ گویا اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کے لیے خود اس کی اپنی صفت رحم کا حوالہ دینا بھی درست ہے اور کسی ایسی بات کا بھی جس سے خدا کی رحمت جوش میں آتی ہو۔ اسی اصول پر اگر دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسری نیک ہستی کا حوالہ دیا جائے اور اس سے مقصود اللہ کی رحمت کو اپیل کرنا ہو تو اس میں شرعا‘ کوئی خرابی معلوم نہیں ہوتی۔

No comments:

Post a Comment